Aaj News

جمعہ, مئ 17, 2024  
08 Dhul-Qadah 1445  

وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کون ہیں؟

اپ ڈیٹ 08 اپريل 2020 07:07am

آٹے اور چینی بحران پر وفاقی تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ میں نام سامنے آنے اور حکومتی زرعی ٹاسک فورس سے ہٹائے جانے کے بعد تحریک انصاف کے سینیئر رہنما جہانگیر ترین نے اپنے خلاف کارروائی کا ذمہ دار وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو قرار دیا تھا۔

یاد رہے کہ اتوار کو ایف آئی اے کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ  ملک میں پیدا ہونے والے چینی بحران سے سب سے زیادہ فائدہ  جہانگیر ترین کی جے ڈی ڈبلیو گروپ اور جے کے کالونی شوگر ملز کو ہوا تھا۔

پیر کو اپنے ردعمل میں جہانگیر ترین نے متعدد ٹی وی چینلز پر اعظم خان  کا ذکر کیا اور کہا کہ گذشتہ چھ ماہ سے ان کے ساتھ اختلافات چل رہے ہیں اور انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے کہا تھا کہ بیوروکریسی کے ذریعے ملک نہیں چلایا جا سکتا۔

اعظم خان کون ہیں؟

PM 'under pressure' to remove principal secretary over sugar crisis

اردو نیوز سے منسلک تحقیقاتی رپورٹنگ سے وابستہ صحافی وسیم عباسی لکھتے ہیں کہ اعظم خان اس وقت وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری ہیں اور وہ پاکستان ایڈمنسڑیٹیو سروس گروپ کے افسر ہیں۔ ضلع مردان کے علاقے رستم میں پیدا ہونے والے اعظم خان کا تعلق ایک بڑے زمیندار گھرانے سے ہے۔

انہوں نے برن ہال کالج ایبٹ آباد سے تعلیم حاصل کی اور سول سروس کے امتحان میں ٹاپ پوزیشن حاصل کرنے کے بعد متعدد اہم پوزیشنز پر تعینات رہے۔ اپنی سروس کا زیادہ تر عرصہ اعظم خان نے صوبہ خیبر پختونخوا میں گزارا جہاں وہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پولیٹیکل ایجنٹ بھی رہے اور پشاور کے کمشنر کے طور پر بھی اپنی خدمات سرانجام دیں۔

صوبے کے مختلف محکموں میں جوائنٹ سیکرٹری، ایڈشنل سیکرٹری کے طور پر کام کرنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے پچھلے دور حکومت میں اعظم خان صوبائی چیف سیکرٹری کے عہدے تک پہنچے جہاں صوبائی حکومت کے اہم اجلاسوں میں شرکت کرنے والے پارٹی چیئرمین عمران خان کی نظر انتخاب ان پر ٹھہری۔

PM's principal secretary part of board considering promotions ...

2018 کے انتخابات میں وزیراعظم بننے کے فوراً بعد عمران خان نے کئی دوسرے سینیئر افسران کی موجودگی کے باجود اعظم خان کو اپنا پرنسپل سیکرٹری تعینات کر دیا جو پاکستان میں بیوروکریسی کا سب سے اہم عہدہ سمجھا جاتا ہے۔

گذشتہ تین دہائیوں سے بیوروکریسی کی رپورٹنگ کرنے والے انگریزی اخبار دی نیوز کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصار عباسی کے مطابق وزیراعظم کا پرنسپل سیکرٹری اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ بعض اوقات وفاقی وزراء بھی اس سے کم اثر رسوخ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی رہنما اس عہدے کے حوالے سے شاکی نظر آتے ہیں۔

انصار عباسی کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد بھی اسی طاقت کے باعث وزیراعظم کے داماد کیپٹن صفدر کی تنقید کا نشانہ بنتے رہے۔

تاہم پرنسپل سیکرٹری اپنا کوئی فیصلہ وزیراعظم کی مرضی کے بغیر نہیں کرتا اور وہ اپنی طاقت وزیراعظم کے دفتر سے ہی اخذ کرتا ہے۔

انصار عباسی کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین کی جانب سے اعظم خان پر تنقید کا جواز نہیں بنتا کیونکہ تمام فیصلے اصل میں وزیراعظم عمران خان کی مرضی سے ہی ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک تاثر پایا جاتا ہے کہ اعظم خان کے انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ ڈاکٹر سلمان خان کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات ہیں جس کی وجہ سے آئی بی کی انکوائری رپورٹس ان سے شئیر ہو جاتی ہیں۔ تاہم اس تاثر کے حوالے سے کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔

خیبر پختونخوا کی بیوروکریسی میں ابھی بھی اعظم خان کا اتنا اثر و رسوخ ہے کہ بعض حلقوں میں وہ وزیراعلیٰ جتنے طاقتور سمجھے جاتے ہیں۔

وہ اپنے قریبی  سرکاری افسران کا خیال رکھنے کے لیے مشہور ہیں۔ خیبر پختونخوا میں اعظم خان کے ساتھ کام کرنے والے ایک سینیئر بیوروکریٹ کے مطابق اعظم خان اپنی خداداد صلاحیتوں اور دیانت داری کے باعث پاکستان کے لیے ایک اثاثہ ہیں۔

سینیئر صحافی کا کہنا تھا کہ اعظم خان بیوروکریسی کو سمجھتے ہیں اور معاملات کو بہتر طریقے سے چلانے کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔

تاہم نیب کے مالم جبہ ریزورٹ لیز کیس میں ان کا نام بھی لیا جاتا ہے اور اس کیس میں وہ نیب کے دفتر میں پیش بھی ہو چکے ہیں۔

نیب کے مطابق سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے دور میں لیز پالیسی تبدیل کرکے محکمہ جنگلات کی 270 ایکڑ زمین لیز پر دے دی گئی جو قواعد کی خلاف ورزی ہے تاہم اعظم خان اپنے خلاف الزامات کی مکمل تردید کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کا اس اسکینڈل سے کوئی تعلق اس لیے نہیں بنتا کہ متنازع ٹھیکہ دیے جانے کے بعد ان کی متعلقہ محکمے میں تعیناتی ہوئی تھی۔

جہانگیر ترین کون ہیں؟

پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما جہانگیر ترین اب تک عمران خان کے بعد پارٹی کے اہم ترین رہنما سمجھے جاتے رہے ہیں۔

ضلع رحیم یار سے تعلق رکھنے والے جہانگیر ترین بنیادی طور پر ایک زمیندار اور بزنس مین تھے تاہم انہوں نے 2002 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ق کی طرف سے الیکشن لڑا اور وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کی کابینہ میں زراعت کے ایڈوائزر کے طور پر شامل ہو گئے۔

2004 میں جہانگیر ترین کو وزیراعظم شوکت عزیز کی کابینہ میں بطور وفاقی وزیر صنعت و پیدوار شامل کر لیا گیا جہاں انہوں نے 2007 تک خدمات سرانجام دیں۔

اس دوران ان کی شوگر ملز کا کاروبار بھی جاری رہا۔ 2008 کے انتخابات میں بھی جہانگیر ترین نے قومی اسمبلی کی نشست پر مسلم لیگ فنکشنل کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی۔

2011  کے اختتام پر انہوں نے ساتھیوں سمیت پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی اور ان کا شمار پارٹی کی اہم ترین شخصیات میں ہونے لگا۔ 2013 میں چیئرمین عمران خان نے انہیں پارٹی کا سیکرٹری جنرل نامزد کر دیا۔

وہ 2013 کے انتخابات میں کامیابی حاصل نہ کر سکے تاہم پارٹی میں اہم حثیت برقرار رکھی اور 2015 کے ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔

تاہم دسمبر 2017 میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے انہیں اپنے کاغذات نامزدگی میں اثاثے چھپانے پر آئین کی دفعہ 62 ون ایف کے تحت کسی بھی سرکاری عہدے کے لیے تاحیات نااہل قرار دے دیا۔

اس کے باوجود جہانگیر ترین نے پارٹی معاملات میں اہم ترین کردار ادا کیا اور ان کے اپنے دعوے کے مطابق 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کے لیے ٹکٹوں کی تقیسم ان کی مشاورت سے ہوئی جس کے باعث پارٹی جیت گئی۔

تاہم فیصلہ کن اکثریت کے لیے پی ٹی آئی کو آزاد امیدواروں کی حمایت کی ضرورت تھی۔ یہاں ایک بار پھر جہانگیر ترین حرکت میں آئے اور اپنے نجی جہاز پر آزاد امیدواروں کو ملک بھر سے بنی گالہ لا لا کر پارٹی میں شامل کراتے گئے جس کے نتیجے مں پی ٹی آئی حتمی اکثریت حاصل کر کے مرکز، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں برسراقتدار آگئی۔

سپریم کورٹ سے نااہلی کے باوجود جہانگیر ترین کو وزیراعظم کی قربت حاصل رہی اور وہ وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں بھی شریک ہوتے رہے اور زرعی ٹاسک فورس کے سربراہ بھی بن گئے۔ وزیراعظم آفس میں اثرورسوخ کے باعث انہیں "ڈپٹی پرائم منسٹر" کا لقب بھی دیا جاتا رہا۔

زراعت کا ماہر ہونے کی وجہ سے وزیراعظم نے انہیں زراعت کے شعبے میں اصلاحات اور معاملات کو اپنی مرضی سے چلانے کی اجازت دی۔ انہیں نہ صرف وفاق بلکہ پنجاب میں بھی خاصا اثرو رسوخ حاصل رہا۔

تاہم رواں سال کے آغاز میں چینی اور آٹے کے بحران کے بعد وزیراعظم کے ساتھ ان کے تعلقات سرد ہونا شروع ہوئے اور ملاقاتیں خاصی محدود ہو گئیں۔

چینی اور آٹے کے بحران پر ایف آئی اے کی رپورٹ میں ان کا نام آنے کے بعد بالآخر سوموار کو انہیں زرعی ٹاسک فورس سے علیحدہ کر دیا گیا جس کے بعد انہوں نے بھی کھل کر اعظم خان سے اختلافات کا ذکر کیا اور یہ تک کہا کہ عمران خان سے ان کے پہلے جیسے تعلقات نہیں رہے۔